Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

148 ”عادلہ کتنی کمزور ہو گئی ہو ،کیا ہو گیا تھا تم کو؟“ عائزہ چیئر پر بیٹھی گم صم سی عادلہ سے پریشانی سے گویا ہوئی تھی۔
”ممی نے تم کو بتایا نہیں تھا جونڈس ہو گیا تھا مجھے۔“ عادلہ کے لبوں پر پھیکی مسکراہٹ تھی۔
”جونڈس! ممی کہہ رہی تھیں فلو ہو گیا تھا تم کو۔“
”اچھا ممی مجھ سے کہہ رہی تھیں جونڈس کا بتایا ہے سب کو۔“ وہ ذہن پر زور ڈالتے ہوئے خود کلامی میں مبتلا تھی عائزہ نے بڑی حیرت سے اس کے ہلکے زردی مائل چہرے کو دیکھا جہاں خزاں رسید چھائی ہوئی تھی۔
”یہ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو عادلہ ،کیا تم ٹھیک ہو؟“ وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر پریشان لہجے میں پوچھا رہی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں ،تم… تم کیوں پریشان ہو رہی ہو۔“ وہ اس سے دور ہو کر بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔


”تم مجھے پریشان لگ رہی ہو بے حد ڈسٹرب! شیری سے کوئی لڑائی ہوئی ہے کیا؟“
”لڑائی… شیری سے لڑائی ہوئی ہے ہاں… تم کو کس نے بتایا؟“ وہ ازحد سراسیمہ و بے حد حواس تھی۔
”میں تو یوں ہی پوچھ رہی تھی اتنے دن ہو گئے ہیں وہ نہ تم سے ملنے آئے ہیں اور نہ کال وغیرہ کر رہے ہیں وہ تم کو۔“
”شیری ان دنوں بزنس میں مصروف ہیں اور میری کوئی لڑائی نہیں ہوئی ہے میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی۔“ خاصی وقت کے بعد وہ خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
”جھوٹ مت بولو عادلہ! سچ بات کیا ہے وہ مجھے بتاؤ۔“ عائزہ کو اس کی بات پر بالکل یقین نہیں آیا تھا۔
”تم کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آ رہا ہے سچ کہہ رہی میں ،کیوں دماغ خراب کر رہی ہو میرا؟“
”تمہاری آنکھیں تمہاری زبان کا ساتھ نہیں دے رہی ہیں عادلہ۔“
”ارے کیا تم عادلہ کے پیچھے پڑ گئی ہو ،ٹھیک تو ہے وہ۔“ صباحت اندر آتے ہوئے عائزہ سے گویا ہوئی تھیں۔
”حالت دیکھیں ممی! کیا ہو گیا ہے اس کو برسوں کی بیمار لگ رہی ہے یہ۔
“ عائزہ اس کی طرف مسلسل دیکھ رہی تھی۔
”کچھ نہیں ہوا ٹھیک ہے ،پانی پلاؤ مجھے۔“ وہ عادلہ کے قریب بیٹھتے ہوئے ڈھیلے انداز میں گویا ہوئی تھیں ،عائزہ نے ایک نگاہ ماں کے چہرے کو دیکھا اور کمرے سے نکل گئی۔
”تم کو اتنا سمجھایا بھی تھا گھر جا کر کوئی تماشہ مت کرنا اور تم وہ ہی کر رہی ہو ،کب تم مجھ کو پریشان کرنا چھوڑو گی؟“ عادلہ نے ماں کو بے حد پریشان پایا تھا اس وقت۔
”ابھی تو آپ ٹھیک ٹھاک گئی تھیں یہاں سے ،اب خاصی اپ سیٹ لگ رہی ہیں۔ کیا بات ہوئی ہے پاپا نے کچھ کہا ہے آپ کو؟“
”تمہاری دادی کے پاس بیٹھے تمہارے پاپا پری کی طغرل سے شادی کی پلاننگ کر رہے ہیں ،میں نے جو چاہا سب اس کے متضاد ہو رہا ہے آخر اس گھر میں میری حیثیت کب مانی جائے گی؟ مثنیٰ یہاں نہ ہوتے ہوئے بھی موجود ہے اور میں کہاں ہوں؟ فیاض آج بھی بڑے پیار سے مثنیٰ کا نام لیتے ہیں اور میری طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی ان کو گوارا نہیں ہے ،میں اتنی بری ہوں؟“ پہلی بار صباحت کو محسوس ہوا وہ فیاض سے کتنی دور ہیں۔
”آپ بری نہیں ہیں ممی!“ عادلہ ان کے قریب ہو کر بولی۔
”آپ بہت اچھی ہیں ،بے حد خوبصورت ہیں کوئی کمی نہیں ہے آپ میں ،پاپا محبت کرتے ہیں آپ سے آپ ہرٹ نہ ہوں۔“
”مجھے بچوں کی طرح بہلانے کی کوشش مت کرو میں جانتی ہوں وہ آج بھی مثنیٰ سے محبت کرتے ہیں ،ان کے دل پر ہمیشہ اس کی حکمرانی رہے گی ،بڑے مزے سے مثنیٰ کی باتیں کر رہے تھے اماں سے اور وہ بڑھیا جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہے۔
”ممی پلیز! خاموش ہو جائیں اگر پاپا نے سن لیا تو قیامت آ جائے گی۔“ ان کے تیز تیز بولنے پر عادلہ گھبرا کر کہنے لگی۔
”نہیں آئیں گے وہ ابھی ،اپنی بیٹی کی شادی کی پلاننگ کر رہے ہیں ،زبردستی اس کو مذنہ بھابی کی بہو بنانے کی ترکیبیں سوچی جا رہی ہیں ،پہلے تو اس کی شکل دیکھنے کے روا دار نہ تھے اور ایسی محبت ابل رہی ہے کہ…“
”ممی کول ڈاؤن ،غصہ مت کریں۔
“ عادلہ نے مسکرا کر کہا۔
###
”شیری! آفس میں آئیں مجھے کوئی بات کرنی ہے آپ سے۔“ وہ جو بیٹھا لیپ ٹاپ پر چیٹنگ میں مصروف تھا ،باپ کے بارعب انداز پر کچھ مضطرب سا ہو گیا تھا ،اس نے انٹر کام پر آئے پیغام پر چند لمحے سوچا پھر عابدی صاحب کے روم میں آ گیا انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو بیٹھنے کو کہا تو وہ ان کے سامنے والی چیئر پر بیٹھ گیا۔
”جی ڈیڈ!“ وہ آہستگی سے بولا۔
”یہ بات میں تم سے کچھ دنوں سے کرنا چاہ رہا ہوں مگر گھر میں نور جہاں میرا سایہ بنی رہتی ہیں اور اس کو کوئی ٹینشن دینا نہیں چاہتا۔“ ان کے لہجے میں سختی تھی۔
”آف کورس ڈیڈی! بولیں… کیا بات ہے؟ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟“
”عادلہ سے شادی کرنے سے انکار کا مطلب کیا ہے؟“ شیری کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا وہ اتنے بولڈ لہجے میں کہیں گے۔
”عا… عادلہ سے شادی…؟“
”گھبراؤ نہیں میں کوئی مشکل زبان نہیں بول رہا جو تم کو سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے میں یہ پوچھ رہا ہوں عادلہ کے ساتھ اتنا ٹائم گزار کر تم کیوں اس شادی سے انکار کر رہے ہو؟“
”وہ فرینڈ شپ ہے ،میں شادی کیلئے اس کو آئیڈیلائز نہیں کرتا ڈیڈی! لائف پارٹنر بنانے کیلئے میرا آئیڈیل کوئی اور ہے۔“
”کون ہے وہ؟“
”وہ… وہ فیاض انکل کی بیٹی ہے پری!“ وہ ان کی مسلسل گھورتی نگاہوں سے انجانہ سا خوف محسوس کر ہا تھا۔
”اوہ! ایک بہن سے دوستی ،دوسری بہن سے شادی کی خواہش رکھتے ہو ،اس سے بھی زیادہ تھرڈ کلاس سوچ کس کی ہو سکتی ہے؟“
”ڈیڈی! اس میں تھرڈ کلاس ایٹی ٹیوڈ کہاں ہے؟“
”شٹ اپ شیری! میں تم کو فیاض کی بیٹیوں کو کھلونا بنانے نہیں دوں گا ،فیاض کی بیٹیاں میری بیٹیوں کی مانند ہیں اور میری عزت بھی ہیں۔“ وہ شدید غصے سے گویا ہوئے۔
”یہ ممکن نہیں ہے میں عادلہ سے شادی نہیں کروں گا ،میری لائف پارٹنر صرف پری ہی بنے گی۔
“ وہ ہٹ دھرمی سے گویا ہوا۔
”پری کا رشتہ فیاض نے اپنے بھتیجے طغرل سے طے کر دیا ہے۔“
”آپ مذاق کر رہے ہیں ڈیڈی! انکل ایسا نہیں کر سکتے۔“ یہ خبر اس کے دل پر بجلی بن کر گری ،وہ ہکا بکا رہ گیا۔
”یہ مذاق کا ٹائم نہیں ہے پھر فیاض طغرل کو اپنا داماد کیوں نہیں بنائے وہ ایک اسٹبلش بزنس مین ہے کچھ عرصے میں ہی وہ ایک بزنس ٹائیکون بن جائے گا اور یہ سب وہ اپنی محنت اور صلاحیتوں سے کر رہا ہے ،ایسے لڑکے کو کون داماد بنانا نہیں چاہے گا۔
”آپ میرے سامنے کسی دوسرے کی تعریف کس طرح کر سکتے ہیں۔“ وہ سخت کبیدہ لہجے میں گویا ہوا۔
”تعریف اس کو ڈیزرو کرتی ہے تمہارا ہی ہم عمر ہے اور دیکھو وہ کہاں ہے اور تم ابھی تک میری بیک پر کھڑے ہو۔“
”آپ نے مجھے ایک غیر شخص کی تعریفیں سننے کیلئے بلایا تھا؟“ طغرل کی تعریفوں نے اس کے اندر آگ بھڑکا دی تھی۔
”میں نہیں جانتا عادلہ سے تمہارے تعلق کی نوعیت کیا ہے مگر یقینا وہ اچھی لڑکی ہے اگر تم اس سے شادی نہیں کرو گے تو میں تم کو عاق کر دوں گا۔
###
”پری! آپ نے طغرل کو ڈنر پر جانے سے انکار کیوں کیا؟ کال آئی ہے میرے سیل پر ان کی ،آپ کو جانا چاہئے۔“ مثنیٰ اور عشرت جہاں ساتھ لاؤنج میں آئی تھیں۔
”ممی! دادی جان کو یہ سب پسند نہیں ہے پھر پایا…“
”ڈونٹ وری میری جان! میں فیاض سے پرمشن لے چکی ہوں اور رہا سوال آپ کی دادی کا تو وہ ایسی بھی نیرومائنڈ نہیں ہیں اور ہم سے زیادہ اپنے پوتے پر ان کا اعتماد ہوگا۔
“ وہ دونوں اس کے اردگرد بیٹھ گئی تھیں۔
”مجھے بھی پسند نہیں اس طرح جانا۔“ وہ تذبذب کا شکار تھی۔
”ہم چاہتے ہیں آپ اور طغرل پہلے اچھی طرح ایک دوسرے کو جان لیں ،ایک دوسرے کی عادت و مزاج کو سمجھ لو ،پھر ہم بات آگے بڑھائیں گے۔“ مثنیٰ کے ساتھ عشرت جہاں بھی اس کو سمجھانے لگی تھیں۔
سیاہ نگینوں والے سیاہ سوٹ میں وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے براؤن بالوں میں برش کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں لرزش تھی ،دل میں اس کے عجیب احساسات تھے آج وہ اس شخص کے ساتھ جا رہی تھی جس سے لڑائیوں کے سلسلے بچپن سے ہی چلتے آئے تھے جو کل تک اس کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھا اور آج… اس کے بغیر رہنے کو اپنی موت قرار دے چکا تھا اس کے مقابلے میں وہ کھرا اور سچا ثابت ہوا تھا جب جھگڑتا تھا تو کسی کی پروا نہ کرتا تھا اور پنی محبت کا اعتراف بھی وہ سب کے سامنے ہی کر رہا تھا جب کہ وہ ابھی تک اس کی محبت کا یقین خود کو یقین سے نہ دلا پائی تھی۔
”ارے یہ کس طرح ریڈی ہوئی ہیں؟“ مثنیٰ وہاں آ کر مسکرا کر بولیں۔
”میں اسی طرح تیار ہوتی ہوں ممی!“ وہ شوز پہنتے ہوئے بولی۔
”اسٹوپڈ ہو بالکل ،اس طرح کوئی باہر جاتا ہے کیا۔“ انہوں نے ریڈ کلر لپ اسٹک کا ایک کوٹ اس کے ہونٹوں پر پھیرا ،میجنگ جیولری پہنائی اور بالوں کو شانوں پر کھلا چھوڑ دیا تھا اس نے کوئی مزاحمت نہ کی شاید بننے سنورنے کی کوئی آروز دل کے کسی گوشے میں دبی ہوئی تھی۔
ان سے دعائیں لے کر وہ باہر نکلی۔
”واؤ ،یہ تم ہی ہو؟ تمہاری کوئی ڈبلی کیٹ تو نہیں ہے؟“ پہلے اس نے اسے دیکھ کر سیٹی کے انداز میں ہونٹ سکیڑے پھر بولا۔ ”آنٹی نے تم کو نکھار دیا ہے میں نہیں جانتا تھا وہ اتنی بہترین بیوٹیشن ہوں گی۔ تم کو انہوں نے کتنا خوبصورت کر دیا ہے۔“ وہ بہت محبت بھرے انداز میں اس کو دیکھ رہا تھا۔
”شرم نہیں آئی آپ کو مما کیلئے اس طرح کہتے ہوئے؟“ وہ خاصی نروس ہو رہی تھی ،طغرل بے حد پسندیدہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا وہ خود بھی سیاہ کوٹ سوٹ میں وجیہہ لگ رہا تھا ،اس کے چہرے پر بے حد مسرت تھی۔
”شرم کی کیا بات ہے میں نے کسی غیر لڑکی کے بارے میں تو نہیں کہا؟ آفٹر آل اپنی لائف پارٹنر کے بارے میں ہی کہا تھا۔“
”ذرا خیال سے ڈرائیو کریں۔“ کار لہرائی تو وہ ڈر کر بولی۔
”اب ایک ساتھ دو چیزیں نہیں دیکھ سکتا ،تم کو دیکھنے سے فرصت ملے تو کار کو دیکھو ،خیر مجھے معلوم نہ تھا تم اتنی کیوٹ ہو ،میرے خیالوں سے بھی بڑھ کر۔
“ اس کی بھاری آواز میں اظہار تھا۔
”اگر آپ اس طرح کی باتیں کریں گے تو میں…“ مارے حیاء کے پھر اس سے بولا ہی نہیں گیا وہ چپ ہوگئی۔
”ہوں ہوں ،کہو… رک کیوں گئیں؟“ اس نے شوخی سے کہتے ہوئے اسٹیئرنگ سے ہاتھ ہٹا کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا جو بے حد ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
”میرا ہاتھ چھوڑیں۔“ اس کا دل بری طرح دھڑک اٹھا تھا۔
”تم اتنی نروس کیوں ہو رہی ہو؟ ہاتھ برف ہو رہا ہے۔
“ وہ فکر مندی سے گویا ہوا۔
”ہاتھ چھوڑیں میرا ،میں نے پہلے کہا تھا میں ایسی کوئی بات برداشت نہیں کروں گی۔“ اس کے چہرے پر خوف و وحشت پھیل گئی تھی۔
”ارے تم اتنا کیوں ڈر رہی ہو؟“
طغرل نے اپنائیت سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر شانوں پر رکھا تھا۔ اس کے ملبوس سے اٹھتی پرفیوم کی تیز مہک اور گرم سانسوں کا اپنے چہرے کو چھونا بدحواس کر گیا ،اس نے خوف سے ادھر ادھر دیکھا ،اردگرد سناٹا تھا۔
سردی کے سبب سرشام ہی ویرانی پھیل جاتی تھی ،یہاں رہائشی آبادی بھی نہیں تھی۔
”کیا تم ٹھیک ہو پارس ،کیا ہو گیا تم کو؟“ اس نے دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس کے چہرے پر ہاتھ لگایا تھا اور پری کے اندر وحشت سے بھرتی چلی گئی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے اس کے بازو چہرے اور شانے سے ہٹائے اور گیٹ کھول کر نیم اندھیرے راستے پر دوڑنے لگی۔

   1
0 Comments